ماہ سال
یہ جو سر گشتہ سے پھرتے ہیں کتابوں والے ،
ان سے مت مل کے انہیں روگ ہیں خوابوں والے .
اب ماہ سال کی فرصت نہیں ملنے والی ،
آ چکے اب تو شب روز عذابوں والے .
اب تو سب دشن خنجر کی زبان بولتے ہیں ،
اب کہاں لوگ وہ محبت کے نصیبوں والے .
جو دلوں پر ہی کبھی نقب زنی کرتے تھے ،
اب گھروں تک چلے آتے ہیں وہ نقابوں والے .
زندہ رہنے کی تمنا ہو تو ہو جاتے ہیں ،
فاختاؤں کے بھی کردار عقابوں والے .
نا میرے زخم کھلے ہیں نا تیرا رنگ حنا ،
اب کے موسم ہی نہیں آئے گلابوں والے .
یوں تو لگتا ہے کے قسمت کا سکندر ہے فراز ، ،
مگر انداز ہیں سب خانہ خرابوں والے ~ . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ