تجھ سا
شبنم نہیں کہتا اسے شعلہ نہیں کہتا
وہ کوئی بھی ہو میں اسے تجھ سا نہیں کہتا
اس ڈر سے کے تو مجھ کو شفا یاب نا کردے
قاتل تجھے کہتا ہوں مسیحا نہیں کہتا
دریا تو ہے وہ جس سے کنارے چھلک اٹھے
بہتے ہوئے پانی کو میں دریا نہیں کہتا
گہرائی جو دی تو نے میرے زخم - ای - جگر میں
میں اتنا سمندر کو بھی گہرا نہیں کہتا
کس کس کی تمنا میں کروں پیار کو تقسیم
ہر شخص کو میں جان ای تمنا نہیں کہتا
کرتا ہوں طفیل اپنے گناہوں پر گریزا
انسان ہو میں خود کو فرشتہ نہیں کہتا . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ