برسوں کے بعد کل اپنا خیال سا ہوا
پھر دیکھا جو آئینہ تو ملال سا ہوا
برگِ آوارہ بھی کئی میری طرح تھے دربدر
تنہا نہں ہوں میں شہر میں یہ احتمال سا ہوا
وہ رو رہا تھا میرے خد و خال دیکھ کر
اور میں بھی ٹوٹ گیا جب وہ نڈھال سا ہوا
کئی رانجھے بِک گئے یہاں مٹی کے مول سائیں
کئی فرہاد تھے جن کے تیشہ کو زوال سا ہوا
گو ہم نے کاٹ تو لی ہے شبِ ہجر انورِ جمال
کیونکر کٹی یہ سوچنا اب محال سا ہوا
Posted on Mar 22, 2014
سماجی رابطہ