یاد رہیگا
اس شام وہ رخصت کا سماں یاد رہے گا
وہ شہر وہ کوچہ وہ مکان یاد رہے گا
وہ ٹیس کے ابھری تھی ادھر یاد رہیگی
وہ درد کے اٹھا تھا یہاں یاد رہے گا
ہم شوق کے شعلے کی لپک بھول جائینگے
وہ شمع افسردہ کا دھواں یاد رہے گا
کچھ میر کے ابیات تھے کچھ فیض کے مصرے
اک درد کا تھا جن میں بیان یاد رہے گا
جان بخش سی تھی اس گل برگ کی تراوٹ
وہ لمس عزیز دو جہاں یاد رہے گا
ہم بھول سکے ہیں نا تجھے بھول سکیں گے
تُو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ