یہ تجربہ بھی کروں یہ بھی کر دیکھوں میں

یہ تجربہ بھی کروں یہ بھی کر دکھلاؤں میں
کے خود کو یاد رکھوں اس کو بھول جاؤں میں

فریب کار میں کچھ تو ہے کوئی بات تو ہے
کے جان بوجھ کے اتنے فریب کھاؤں میں

وہ پل کہاں ہیں جو دنیا سے جوڑتا تھا مجھے
جو پاؤں تجھ کو تو سب کے قریب آؤں میں

کبھی تو ہو میرے احساس کمتری میں کمی
کبھی تو ہو کہ اسے کھل کے پاؤں میں

وہ شخص ہے کہ نسیم سحر کا جھونکا ہے
بکھر ہی جاؤں جو اس کو گلے لگاؤں میں

اذان کے بعد دعا کو جو ہاتھ اٹھائے وہ
" امام " اپنی نمازیں بھی بھول جاؤں میں ،

Posted on Feb 16, 2011