کیوں حجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا ہے تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
آغاز مصیبت ہوتا ہے اپنے ہی دل کی شرارت سے
آنکھوں میں پھول کھلتا ہے پیچھے کانٹے بوتا ہے
احباب کا شکوہ کیا کیجیے خود ظاہر واہ باطن ایک نہیں
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے
ملاحوں کو الزام نا دو تم ساحل والے کیا جانو
یہ طوفان کون اٹھاتا ہے یہ کشتی کون ڈبوتا ہے
کیا جانے کیا یہ کھوئے گا کیا جانے کیا یہ پائیگا
مندر کا پجاری جگاتا ہے مسجد کا نمازی سوتا ہے . . . !
Posted on Aug 07, 2012
سماجی رابطہ