آج دریچے میں وہ آنا بھول گیا 
 میں بھی اپنا دیا جلانا بھول گیا ، 
 
 آج مجھے بھی اسکی یاد نہیں آئی 
 وہ بھی میرے خواب میں آنا بھول گیا ، 
 
 بہار نے جب سے آنا چھوڑے دیا 
 موسم بھی اپنا پھول کھلانا بھول گیا ، 
 
 چلتے چلتے میں اسکو گھیر لے آئی 
 وہ بھی مجھ سے اپنا ہاتھ چھڑانا بھول گیا ، 
 
 خط لکھا ہے پر خط کے کونے پر 
 وہ اپنی آنکھ کا آنسو مٹانا بھول گیا 
 
 روٹھ کے دونوں ایک جگا بیٹھے رہے 
 میں اسکو وہ مجھ کو منانا بھول گیا . . . ! 
Posted on Mar 10, 2012







سماجی رابطہ