طلوع شمس مفارقات ہے
پرانی کرنیں نئے مکانوں کے آنگنوں میں لرز رہی ہیں
فصیل شہر وفا کے روزن چمکتے ذروں سے بھر گئی ہیں
گئے دنوں کی عزیز باتیں نگار صبحیں گلاب راتیں
بساط دل بھی عجیب شے ہے ہزار جیتیں ہزار ماتیں
جدائیوں کی ہوائیں لمحوں کی خوش مٹی اڑا رہی ہیں
گئی رتوں کا ملال کب تک
چلو کے شاخیں تو ٹوٹتی ہیں
چلو کے قبروں پے خون رونے سے
اپنی آنکھیں ہی پھوٹتی ہیں
یہ موڑ وہ ہے جہاں سے میرے تمہارے رستے بدل گئے ہیں
پرانی راہوں کو لوٹانا بھی ہماری تقدیر میں نہیں
کے راستے بھی ہمارے قدموں کے ساتھ آگے نکل گئے ہیں
طلوع شمس مفارقات ہے
تم اپنی آنکھوں میں جھلملاتے ہوئے ستاروں کو موت دے دو
گئی رتوں کے تمام پھولوں تمام خاروں کو موت دے دو
نئے سفر کو حیات بخشو
کے پچھلی راہوں پے سبت جتنے نقوش پا ہیں
وہ بار ہونگے
ہوا اڑائے کے تم اڑاؤ
ا?خری بات
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ