اب تک وہی خواب ہیں وہی میں
وہی میرے گلاب ہیں ، وہی میں
یہ جسم کے جان کی تشنگی ہے
وہی تازہ سراب ہیں وہی میں
زندہ ہوں ابھی تو مات کیسی ؟ ؟
وہی جان کے عذاب ہیں ، وہی میں
کہتی ہے زبان خاموشیوں کی
وہی درد کے باب ہیں وہی میں
پڑھتے ہوئے جن کو عمر گزری
وہی چہرے کتاب ہیں وہی میں
لکھتے ہوئے جن کو جان جائے
وہی حرف نصاب ہیں وہی میں
وہی رنجشیں اپنے دوستوں سے
وہی دل کے حساب ہیں وہی میں
آتے ہیں مگر نہیں برستے
وہی تشنی بادل ہیں وہی میں
آنکھوں میں وہی ستارا آنکھیں
وہی دل میں گلاب ہیں وہی میں
دنیا کے سوال . . . اور دنیا
وہی میرے جواب ہیں . . . وہی میں ! !
Posted on Oct 17, 2011
سماجی رابطہ