راستے ، منزلیں ، جستجو اور میں
ہم نفس ، اک تیری آرزو اور میں
کوئی رشتہ ، شناسائی ، کچھ بھی نہیں
آئینہ ہے میرے روبرو ، اور میں
جگنوؤں کی طلب کا صلہ یہ ملا
تیرگی ہے میرے چار سو ، اور میں
خواب کی تتلیاں جب اُڑائی آنکھ سے
رہ گئی خواہش رنگ و بو ، اور میں
رات بھر جاگتے ہیں ستاروں تلے
تیرا لہجہ ، تیری گفتگو ، اور میں
آنکھ میں خواب کی کرچیاں رہ گئیں
ہاتھ میں اڑیں کا لہو ، اور میں
سوچتی ہوں کہاں جاؤں ، کس سے کہوں
شہر دشمن ، فذا بھی رقیب ، اور میں
دامن عمر میں سر چھپا کر ، بہت
رو دیے ہیں ، تیری آرزو ، اور میں
ریگ صحرا ہوئے ہیں تیرے عشق میں
میرے احساس کی اَبْرُو ، اور میں
میرے ساحر ، بچھڑتے سمے رہ گئیں
تیری آنکھیں میرے چار سو ، اور میں
کاش ایسا ہو ، ساحل کنارے کبھی
اور کوئی نا ہو ، صرف تو ، اور میں . . . !
آئینہ ہے میرے روبرو ، اور میں
Posted on Dec 16, 2011
سماجی رابطہ