انہی خوش گمانیوں میں

انہی خوش گمانیوں میں
کہیں جان سے بھی نا جاؤ
وہ جو چارہ گر نہیں ہے
اسے زخم کیوں دکھاؤ

یہ اداسیوں کے موسم
کہیں رائے گان نا جائیں
کسی زخم کو کریدو
کسی درد کو جگاؤ

وہ کہانیاں ادھوری
جو نا ہو سکیں گی پوری
انہیں میں بھی کیوں سنائوں
انہیں تم بھی کیوں سناؤ ؟

میرے ہمسفر پرانے
میں اب بھی منتظر ہو
تمہیں ساتھ چھوڑنا ہے
تو ابھی سے چھوڑ جاؤ

یہ جدائیوں کے راستے
بڑی ڈور تک گئے ہیں
جو گیا وہ پھر نا لوٹا
میری بات مان جاؤ

کسی بیوفا کی خاطر
یہ جنون فراز کب تک
جو تمہیں بھلا چکا ہے
اسے تم بھی بھول جاؤ . . . . . . ! ! !

Posted on Dec 15, 2011