سیاہ حجر گیا ، زرد انتظار گئے
کسی کا درد گیا درد کے حصار گئے
اداس رات ، خزاں ہمسفر ، سفر گمنام
تیرے خیال کے موسم ہمیں تو مار گئے
نا جان بھڑکتی ہے اپنی نا راکھ ہوتے ہیں
ہمیں یہ کیسی مصیبت میں تم اُتار گئے
عجیب دشمن جان تھا کے بن لڑے جیتا
عجیب جنگ تھی ہم جس میں ہار گئے
بہت ہی تھوڑی سی مہلت ملی محبت کی
ہم اپنا آپ مگر جاتے جاتے وار گئے
کسی کے بھیجے ہوئے آگئے تھے دنیا میں
کسی سے مانگی ہوئی زندگی گزار گئے
نا چاند اٹکا کسی جا نا بدلیاں اٹکیں
ہم اسکی رات کے آنگن میں بار بار گئے ! !
Posted on Sep 14, 2011
سماجی رابطہ