اپنا کوئی شعر سنا دیتے

اپنا کوئی شعر سنا دیتے

اپنے ہونے کا ہم اس طرح پتہ دیتے تھے
خاک مٹھی میں اٹھاتے تھے اڑا دیتے تھے

بے ثمر جان کے ہم کاٹ چکے ہیں جو شجر
یاد آتے ہیں کے بے چھیڑے ہوا دیتے تھے

اسکی محفل میں وہی سچ تھا وہ جو کچھ بھی کہے
ہم بھی گونگوں کی طرح ہاتھ اٹھا دیتے تھے

اب سے پہلے جو قاتل تھے بہت اچھے تھے
قتل سے پہلے جو پانی تو پلا دیتے تھے

وہ ہمیں کوستا رہتا تھا زمانے بھر میں
اور ہم اپنا کوئی شعر سنا دیتے تھے

گھر کی تعمیر میں ہم برسوں رہے ہیں پاگل
روز دیوار اٹھاتے تھے گرا دیتے تھے

ہم بھی اب جھوٹ کی پیشانی کو بوسہ دینگے
تم بھی سچ بولنے والے کو دعا دیتے تھے

Posted on Feb 16, 2011