اپنا تو رویہ ہے

اپنا تو رویہ ہے

اپنا تو رویہ ہے یہ گفتار سے پہلے
ثابت کرو تلقین کو کردار سے پہلے

پوچھو تو ذرا حال بھی بیمار سے پہلے
دل کو نا قرار آئے گا دیدار سے پہلے

ازبر تھے اسے پگڑی کے آداب ہیں جتنے
سر دینے پے راضی تھا جو دستار سے پہلے

طے کی میرے قدموں نے تصور کی مسافت
منزل پے ہوں پہنچا ہوا رفتار سے پہلے

دانائی ہے اس قول میں حکمت بھی بہت ہے
تولو تو ذرا بات کو گفتار سے پہلے

تعمیر میں ترتیب بھی آ جائے تو اچھا
کیا در بھی بنا کرتا ہے دیوار سے پہلے

واعظ یہ کہے جرم ہے نظروں کی خیانت
پوچھو تو کبھی گزرا ہے بازار سے پہلے

مایوس نا ہو وقت گزر جائے گا یہ بھی
اچھے بھی تو دن آئے تھے آزار سے پہلے

کٹ جائیں گے یہ ہاتھ جو بن جائے گا مدفن
یہ بات تو طے کرنی تھی معمار سے پہلے

قاضی تیرے انصاف سے یہ مجھ کو گلہ ہے
پکڑے ہیں یہ معصوم گناہ گار سے پہلے

فاضل تو نہیں لکھے گا شاہوں کی حکایت
تربت اسے منظور ہے دربار سے پہلے . . . .

Posted on Feb 16, 2011