اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
ایک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا سہرہ دیکھوں
شام بھی ہو گئی دھندلا گئی آنکھیں بھی میری
بھولنے والے میں کب تک تیرا رستہ دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
تو میری طرح سے یكتا ہے مگر میرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے اسے بس ایک بار
خواب بن کر تیری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو میرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جان حیات
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں . . . !
Posted on Jul 31, 2012
سماجی رابطہ