بابا گڑیا لا دو نا
بیٹھی ہے وہ انتظار میں سہ پہر سے
ماں کب آئینگے بابا پوچھے بیتابی سے
کھلے معصوم چہرہ بابا کی دستک سے
دور کر لپٹ جائے بابا کی ٹانگوں سے
معصوم اندازِ میں کہا اپنے بابا سے
بابا گڑیا لا دو نا
بابا اسکو گود میں اٹھا کر مسکراتا ہے
بڑی محبت سے بیٹی کو اپنی بوسہ دیتا ہے
سینے سے اپنے چمٹا کے وہ یہ کہتا ہے
آج بہت تھک گیا بیٹا اور کل پہ ٹال دیتا ہے
سن کے بیٹی کی یہ فریاد وہ آہ بھرتا ہے
بابا گڑیا لا دو نا
بعد اس کے جائے وہ کھیلنے اپنی سہیلیوں سے
سجائے دوسروں کی گڑیا کو اس امید سے
بناؤںگی دلہن گڑیا کو اپنی کل پیار سے
کرے ودائی گڑیا کی وہ نم آنکھوں سے
اور من من میں وہ کہے بڑی حسرت سے
بابا گڑیا لا دو نا
آ کے گھر بیٹھے ماں کی آغوش میں لاڈ سے
ماں کھانا کھلائے اس کو بڑے پیار سے
کچھ سوچ کر منه پھیرے وہ کھانے سے
کھاؤںگی کھانا ساتھ گڑیا کے کہے ماں سے
جا کے پھر معصوم سی ضد کرے اپنے بابا سے
بابا گڑیا لا دو نا
دیکھ نا پائے بیٹی آنسوں کو چھپاتا ہے
دل کے اندر ہی اپنی آہوں کا گلا دباتا ہے
اور مسکراتی آنکھوں سے بیٹی کو مناتا ہے
اپنے ہاتھوں سے پھر اسکو کھانا کھلاتا ہے
کچھ یونہی بیٹی کو اس ضد سے چپ کراتا ہے
بابا گڑیا لا دو نا
بابا اس کا جب رات کو سونے جاتا ہے
بیٹی کو وہ اپنے سینے پہ سُلاتا ہے
بند آنکھوں سے اپنے کل کو سوچتا ہے
ان گنت ضرورتوں میں وہ کھوٹا ہے
سوچ کے بیٹی کی یہ فریاد وہ روتا ہے
بابا گڑیا لا دو نا
بس اب یہ قلم بھی ہار چکا اس غربت سے
ہے لب امن پہ بس یہ ایک دعا اللہ سے
نا رہیں حسرتیں زندگی میں نئی صبح سے
یہ بچی کھیلے سنگ سہیلیوں کے اپنی گڑیا سے
پھر کبھی یہ بچی کہہ نا سکے اپنے بابا سے
بابا گڑیا لا دو نا
بابا گڑیا لا دو نا
بابا گڑیا لا دو نا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ