بدل سکا نا جدائی کے غم اٹھا کر بھی

بدل سکا نا جدائی کے غم اٹھا کر بھی
کے میں دھوکے میں ہی رہا تجھ سے دور جا کر بھی

میں سخت جان تھا اس قرب سے بھی بچ نکلا
میں جی رہا ہوں تجھے ہاتھ سے گنوا کر بھی

خدا کرے تجھے دوری ہی راس آجائے
تو کیا کرے گا بھلا اب یہاں پر آ کر بھی

ابھی تو میرے بکھرنے کا کھیل باقی ہے
میں خوش نہیں ہوں ابھی اپنا گھر لوٹا کر بھی

ابھی تو اس نے کوئی بھی فیصلہ نا کیا
وہ چپ ہے مجھ کو ہر طرح سے آزما کر بھی

وہ اور لوگ تھے جن کا عجزِ حال ہوا
ہمیں تو کچھ نا ملا اپنا آپ مٹا کر بھی

کھلا یہ بھید کے تنہائیاں ہی قسمت ہیں
ایک عمر دیکھ لیا محفلیں سجا کر بھی

غزل کہنے پے بھی سوچوں کا بوجھ کم نا ہوا
سکون نا مل سکا احوال دل سنا کر بھی

رکا نا ظلم میرے رکھ بننے پر بھی ریاز
ہوا کی کھوج تو وہی ہے مجھے جلا کر بھی . . . !

Posted on Feb 14, 2012