کاغذ کا گھر بنا کے بھی خواہش ہوا کی تھی

سفر وفا کی راہ میں منزل جفا کی تھی ،

کاغذ کا گھر بنا کے بھی خواہش ہوا کی تھی

تھی جگنوؤں کے شہر میں تاروں سے دشمنی ،

معشوق چاند تھا اور تمنا صبح کی تھی

تم نے تو عبادت کا تماشہ بنا دیا ،

چاہت نماز کی تھی پر عادت قضا کی تھی ،

میں نے تو زندگی کو تیرے نام لکھا تھا ،

شاید مگر کچھ اور ہی مرضی خدا کی تھی ،

درد ہے دینا تھا تو پہلے بتا دیتے ،

ہم کو بھی ازل سے ہے تمنا سزا کی تھی . . . ! ! !

Posted on Feb 14, 2012