بھیڑ میں چاروں طرف چہرے انجانے ملے
میرے اپنے آج مجھ سے بن کے بیگانے ملے
تھا بھروسہ دوستوں پر اتنا کے مجھ سے نا پوچھ
جن کے ہاتھوں میں تھے پتھر لوگ پہچانے ملے
بن کے مرہم وقت ہی بھرتا ہے ہر ایک زخم کو
جیسے جیسے وقت بیتا زخم پُرانے ملے
کس کے آگے روتے اور سناتے اپنی داستان
بستی تھی اجڑی ہوئی سنسان ٹھکانے ملے
اب نا مانگیں گے گے الہی زندگی کی بھیک ہم
عشق میں شمع کے یہ کہتے ہوئے پروانے ملے
دل دیا تھا ناز سے جس جس نے اپنی جان کو
چند ٹوٹے دل کے ٹکڑے انکو نظرانے ملے
ماضی کی یاد میں سب ڈوبے ہوئے تھے اس قدر
خواب تیرے شہر کے سب لوگ دیوانے ملے . . . !
Posted on Feb 13, 2012
سماجی رابطہ