بیری پر سکون تھی زندگی

بڑی پر سکون تھی زندگی ، نیا درد کس نے جگا دیا
کسی بے نیاز نگاہ نے ، میری وحشتوں کو بڑھا دیا

میرے کم سخن کا یہ حکم تھا ، کے کلام اس سے میں کم کروں
میرے ہونٹ ایسے سلے کے پھر ، میری چپ نے اس کو رلا دیا


مجھے اپنے عشق پے ناز تھا ، مگر اس کے قول کا پاس تھا
میرے چارا ساز بھی رُو پرے ، وہ کمال ضبط دیکھا دیا


اسے شاعرِ سننے کا ذوق تھا ، مجھے عرضِ حال کا شوق تھا
اسے ذوق و شوق میں ایک دن ، اسے دل کا حال سنا دیا


وہ نگاہ کسی نگاہ تھی ، یہ گریز کیسا گریز ہے
مجھے دیکھ کے بھی نا دیکھنا ، اس ادا نے راز بتا دیا


کسی نام سے کسی یاد سے ، میری دل کی بزم سجی رہی
کبھی یہ چراغ جلا دیا ، کبھی وہ چراغ جلا دیا

Posted on Feb 16, 2011