کہو تو لوٹ جاتے
ابھی تو بات لمحوں تک ہے ، سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی ، نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری ، خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں تک ہے ، بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوڑھ جاتے
ابھی کاجل کی ڈوری ، سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے ، زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشک کستوری غزالوں تک نئی آئی
ابھی روداد بے عنوان ، ہمارے درمیان ہے
دنیا والوں تک نہیں آئی ، کہو تو لوٹ جاتے
ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
وہ بادہ نار ہو جائی یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے
یہ رستہ پیار کا رستہ رسم کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جانا
کے اس رستے کا ہر ذرہ بھی ، اک کوہسار ہے جانا
کہو تو لوٹ جاتے
مرے بارے نا کچھ سوچو ، مجھے طے کرما آتا ہے
رسم کا دار کا رستہ ،
یہ آسیبوں بھرا رستہ ،
یہ اندھی غار کا رستہ ،
تمہارا نرم و نازک ، ہاتھ ہو گر میرے ہاتھوں میں
تو میں سمجھوں کے جیسے دو جہاں ہیں ، میری مٹھی میں
تمہارا قرب ہو تو ، مشکلیں کافور ہو جائی
یہ اندھے اور کالے راستے ، پر نور ہو جائی
تمھارے گیسوئوں کی چھاؤں مل جائے ،
تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا ہے
اٹھا لو اپنا سایہ تم ، میری اوقات ہی کیا ہے
مرے بارے نا کچھ سوچو ، تم اپنی بات بتلائو
کہو تو چلتے رہتے ہیں ، کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
کہو تو چلتے رہتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ