بارش ہوئی تو پھولوں کے تن چاک ہوگئے
موسم کے ہاتھ بھیگ کے سفاک ہوگئے
بادل کو کیا خبر ہے کہ بارش کی چاہ میں
کیسے بلند و بالا شجر خاک ہوگئے
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
لہرا رہی ہے برف کی چادر ہٹا کے گھاس
سورج کی شہہ پہ تنکے بھی بےباک ہوگئے
بستی میں جتنے آب گزیدہ تھے سب کے سب
دریا کے رخ بدلتے ہی تیراک ہوگئے
سورج دماغ لوگ بھی ابلاغِ فکر میں
زلفِ شب ِفراق کے پیچاک ہوگئے
جب بھی غریبِ شہر سے کچھ گفتگو ہوئی
لہجے ہوائے شام کے نمناک ہوگئے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ