بچھڑا ہے جو ایک بار تو ملتے نہیں دیکھا
اس زخم کو ہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا
اک بار جسے چاٹ گئی دھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا
یک لخت گرا ہے تو جڑیں تک نکل آئی
جس پیڑ کو آندھی میں بھی ہلتے نہیں دیکھا
کانٹوں میں گہری پھول کو چوم آئیگی لیکن
تتلی کے پڑوں کو کبھی چلتے نہیں دیکھا
کس طرح میری روح ہری کرگیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں کھلتے نہیں دیکھا
Posted on May 27, 2011
سماجی رابطہ