درد پھیل جائے تو
درد پھیل جائے تو
ایک وقت آتا ہے
دل دھڑکتا رہتا ہے
آرزو گزیدوں کے حوصلے نہیں چلتے
دشت بےیقینی میں آسرے نہیں چلتے
راہ رواں کی آنکھوں میں
منزلیں نا جب تک ہوں قافلے نہیں چلتے
ایک ذرا توجہ سے دیکھیئے تو کھلتا ہے
لوگ ان پے چلتے ہیں راستے نہیں چلتے
سوچنے سمجھنے سے ساتھ ساتھ چلنے سے
دوریاں سمٹتی ہیں فاصلے نہیں چلتے
خواب خواب آنکھوں میں رتجگے نہیں چلتے
در گزر کے حلقے میں مسئلے نہیں چلتے
دو دلوں کی قربت میں تیسرا نہیں ہوتا
واسطے نہیں چلتے
بخت ساتھ چلتا ہے
وقت رام کرنے میں تجزیوں کے داؤ کیا
تجربے نہیں چلتے
عشق کے علاقے میں حکم یار چلتا ہے
ضابطے نہیں چلتے
حسن کی عدالت میں عاجزی تو چلتی ہے
مرتبے نہیں چلتے
دوستی کے رشتوں کی پرورش ضروری ہے
سلسلے تعلق کے خود سے بن تو جاتے ہیں
لیکن ان شگوفوں کو ٹوٹنے بکھرنے سے
روکنا بھی پڑتا ہے
چاہتوں کی مٹی کو آرزو کے پودے کو
سینچنا بھی پڑتا ہے
رنجشوں کی باتوں کو بھولنا بھی پڑتا ہے
درد پھیل جائے تو
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ