درد پھر جاگا ، پرانا زخم پھر تازہ ہُوا
فصلِ گل کِتنے قریب آئی ہے ، اندازہ ہُوا
صبح یوں نکلی ، سنور کے جس طرح کوئی دُلہن
شبنم آویزہ ہُوئی ، رنگِ شفق غازہ ہُوا
ہاتھ میرے بُھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اُس کے گھر کا دروازہ ہُوا
ریل کی سیٹی میں کیسے ہجر کی تمہید تھی
اُس کو رخصت کرکے گھر لَوٹے تو اندازہ ہُوا
Posted on Dec 17, 2012
سماجی رابطہ