یہ عمر تمہاری ایسی ہے
جب آسمان سے تارے توڑ کے لے آنا بھی
سچ مچ ممکن لگتا ہے
شر کا ہر آباد علاقہ
اپنا آنگن لگتا ہے
یوں لگتا ہے جیسے ہر دن
ہر اک منظر
تم سے اجازت لے کر اپنی شکل معیّن کرتا ہے
جو چاہو وہ ہو جاتا ہے جو سوچو، وہ ہو سکتا ہے
لیکن اے اس کچی عمر کی بارش میں مستانہ پھرتی چنچل لڑکی
یہ بادل جو آج تمہاری چھت پر رُک کر تم سے باتیں کرتا ہے
اِک سایہ ہے
تم سے پہلے اور تمہارے بعد کے ہر اِک موسم میں یہ
ہر ایک چھت پر ایسے ہی اور اسی طرح سے
دھوکے بانٹتا پِھرتا ہے
صبحِ ازل سے شامِ ابد تک ایک ہی کھیل اور ایک ہی منظر
دیکھنے والی آنکھوں کو ہر بار دکھایا جاتا ہے
اے سپنوں کی سیج پہ سونے جاگنے والی پیاری لڑکی
تیرے خواب جئیں
لیکن اتنا دھیان میں رکھنا جیون کی اس خواب سرا کے سارے منظر
وقت کے قیدی ہوتے ہیں
جو اپنی رو میں ان کو ساتھ لئے جاتا ہے
اور مہمیز کیے جاتا ہے
دیکھنے والی آنکھیں پیچھے رہ جاتی ہیں
دیکھو جیسے میری آنکھیں
دیکھو جیسے میری آنکھیں
Posted on May 06, 2011
سماجی رابطہ