دلِ تباہ نے اک تازہ زندگی پائی
تمھیں چراغ ملا، ہم نے روشنی پائی
ترے خیال سے فرصت اگر کبھی پائی
بھری بھری سی یہ دُنیا تہی تہی پائی
ستم بھی تیرے تغافل کو سازگار آیا
وفا کی داد بھی ہم نے کبھی کبھی پائی
نکھر گئے ہیں پسینے بھی بھیگ کر عارض
گلوں نے اور بھی شبنم سے تازگی پائی
سحر سے مل تو گیا سلسلہ اُجالوں کا
حیات شمع نے کہنے کو عارضی پائی
کبھی جو یاد خراباتِ آرزو آیا
غم حیات کی تلخی میں کچھ کمی پائی
درِ حرم سے جو کچھ ملا، ملا تاباں
درِ مغاں سے بھی پائی تو تشنگی پائی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ