دل میں ہم ایک ہی جذبے کو سموئیں کیسے ، 
 اب تجھے پا کے یہ الجھن ہے کے کھوئے کیسے ، 
 
 ذہن چھلنی جو کیا ہے ، تو یہ مجبوری ہے ، 
 جتنے کانٹے ہیں ، وہ تلووں میں پروئیں کیسے ، 
 
 ہم نے مانا کے بہت دیر ہے حشر آنے تک ، 
 چار جانب تیری آہٹ ہو تو سوئیں کیسے ، 
 
 کتنی حسرت تھی ، تجھے پاس بٹھا کر روتے ، 
 اب یہ یہ مشکل ہے ، تیرے سامنے روئے کیسے . . . ! 
Posted on Apr 13, 2012







سماجی رابطہ