دکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا

دکھ کی لہر نے چھیڑا ہو گا ،

یاد نے کنکر پھینکا ہو گا ،

آج تو میرا دل کہتا ہے ،

تو اس وقت اکیلا ہو گا ،

میرے چومے ہوئے ہاتھوں سے ،

اوروں کو خط لکھتا ہو گا ،

بھیگ چلیں اب رات کی پلکیں ،

تو اب تھک کر سویا ہو گا ،

ریل کی گہری سیٹی سن کر ،

رات کا جنگل گونجا ہو گا ،

شہر کے خالی اسٹیشن پر ،

کوئی مسافر اترا ہو گا ،

یادوں کی جلتی شبنم سے ،

پھول سا مکھڑا دھویا ہو گا ،

موتی جیسی شکل بنا کر ،

آئینے کو تکتا ہو گا ،

شام ہوئی اب تو بھی شاید ،

اپنے گھر کو لوٹا ہو گا ،

نیلی دھندلی خاموشی میں ،

تاروں کی دھن سنتا ہو گا ،

میرا ساتھی شام کا تارا ،

تجھ سے آنکھ ملاتا ہو گا ،

شام کے چلتے ہاتھ نے تجھ کو ،

میرا سلام تو بھیجا ہو گا ،

میں تو آج بہت رویا ہوں ،

تو بھی شاید رویا ہو گا ،

ناصر تیرا میت پرانا ،

تجھ کو یاد تو آتا ہو گا . . . . !

Posted on Jan 03, 2012