دنیا سے جدا کیسی یہ اپنی طبیعت ہے

دنیا سے جدا کیسی یہ اپنی طبیعت ہے
میں محوِ محبت ہوں، وہ محوِ سیاست ہے


ہر سانس مرے حق میں الزام ہے، تہمت ہے
زندہ ہوں ترے غم میں اتنا بھی غنیمت ہے


اے اشک سحر گاہی' یہ کیسی مصیبت ہے
بولوں تو ہے رسوائی، چُپ ہوں تو قیامت ہے


بے فیض یہ آنسُو ہیں شاید تری نظروں میں
لیکن مرے مذہب میں نام ان کا عبادت ہے


غم حاصلِ ہستی ہے ، غم منزلِ ہستی ہے
ہے عشق میں غم تو کیا، غم ہی تو محبت ہے


اے یادِ شبِ ہجراں، لے آئی کہاں مُجھ کو
حیرانی سی حیرانی ، وحشت سی یہ وحشت ہے


الزامِ جنوں پر میں بد دل ہوں تو کیسے ہوں
الزامِ جنوں ہی تو انعام ِ محبت ہے




دنیا تجھے دیوانہ کہتی ہے اگر سرور
کچھ جھوٹ نہیں اس میں، واللہ حقیقت ہے

Posted on Feb 16, 2011