گزرتا ہوں میں جب بھی تیرے شہر کی گلیوں سے

گزرتا ہوں میں جب بھی تیرے شہر کی گلیوں سے ،
بیتی صدائیں رقص کرتی ہیں تیرے آشیانے سے ،

کرتا ہوں یاد میں تجھے جب بھی ،
اک آہ سی اٹھتی ہے میرے سینے میں ،

پوچھتے ہیں لوگ مجھ سے بے بسی کا سبب ،
کہتا ہوں کے دل لگایا تھا ایک پتھر سے ،

مر کر بھی نا بھلا پاؤں گا میں وہ لمحے ،
کھیلتا تھا میں جب بھی تیری ناچتی زلفوں سے ،

رہتا ہے اک بچہ سا میرے وجود میں حسنین ،
بہلتا ہے جو تیری یادوں کے کھلونے سے . . . !

Posted on Apr 16, 2012