حسین لگتا تھا ہم نے جن دنوں میں اسکو دیکھا تھا
بسنتی موسموں ، بھیگی رتوں میں اسکو دیکھا تھا
اسی کے عکس نے آنکھیں خمار خواب سے بھر دیں
چمکتے چاند جیسے آئینوں میں اسکو دیکھا تھا
جسے اب ریت کے کچے گھروندوں سے محبت ہے
سمندر کے سنہرے پانیوں میں اسکو دیکھا تھا
جو تنہائی کی چادر اوڑھ کر سوتا ہے رستوں میں
کبھی اس شہر کی سب محفلوں میں اسکو دیکھا تھا
بگولوں کو پہن کر اب جو صحرا میں بھٹکتا ہے
گلاب و یاسمیں کے جنگلوں میں اسکو دیکھا تھا
جو اپنے قریہ دل کی اُداسی سے بہلتا ہے
گھٹاؤں میں گھری غم بستیوں میں اسکو دیکھا تھا
ضرورت ہے جسے اب دھوپ کا اُجْلا کفن محسن
بدن پر برف اوڑھے پربتوں میں اسکو دیکھا تھا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ