ہم بھی خود دشمن جان تھے پہلے
تم مگر دوست کہاں تھے پہلے
اب وہاں خاک اڑاتی ہے خزاں
پھول ہی پھول جہاں تھے پہلے
اب جو دیوار بنے بیٹھے ہیں
صورت موج رواں تھے پہلے
کچھ شرابی کہہ ہیں اب راہ نشین
رونق بزم مغاں تھے پہلے
ہم کہہ ہیں آج غبار پس رُو
منزل ہم سفران تھے پہلے
اب کسے وزہ محبت کا خیال
اور ہی لوگ یہاں تھے پہلے
اب تو خد پر بھی نہیں زعم وفا
تجھ سے ہم شکوہ کناں تھے پہلے
بن گیا كافلہ چلتے چلتے
ورنہ تنہا ہی رواں تھے پہلے
دولت غم تو میسر تھی فراز
اتنے مفلس بھی کہاں تھے پہلے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ