ہم نے سُنا تھا صحنِ چمن میں کیف کے بادل چھائے ہیں
ہم بھی گئے تھے جی بہلانے، اشک بہا کر آئے ہیں
پُھول کِھلے تو دل مُرجھائے، شمع جلے تو جان جلے
ایک تمہارا غم اپنا کر، کتنے غم اپنائے ہیں
ایک سُلگتی یاد، چمکتا درد، فروزاں تنہائی
پوچھو نہ اُسکے شہر سے ہم کیا کیا سوغاتیں لائے ہیں
سوئے ہوئے جو درد تھے دل میں، آنسو بن کر بہہ نکلے
رات ستاروں کی چھاؤں میں، یاد وہ کیا کیا آئے ہیں
آج بھی سُورج ڈُوب گیا، بے نور اُفق کے ساگر میں
آج بھی پُھول چمن میں تُجھکو بِن دیکھے مُرجھائے ہیں
ایک قیامت کا سنّاٹا، ایک بلا کی تاریکی
اِن گلیوں سے دُور نہ ہنستا چاند نہ روشن سائے ہیں
پیار کی بولی بول نہ جالب! اِس بستی کے لوگوں سے
ہم نے سُکھ کی کلیاں کھو کر، دُکھ کے کانٹے پائے ہیں
Posted on Jun 04, 2011
سماجی رابطہ