اک اداسی ہے ہر طرف مدھم مدھم
بہار پر بھی خزاں کا گمان ہونے لگا
چلے بھی آؤ میری مسیحا میری ہمدم
تم جو چلے آئو تو دل کا نگر روشن ہو
دل ای بوجھل کو ملے خوشی جاودانی کی
تپتے وجود کو سایہ ابر ملے
شب و روز کہنے لگیں نئی داستان
زندگی کی رہگزر پر تم جو میری سنگ چلو
چاند ساتھ چلے بعد صباء ساتھ چلے
دیے جلنے لگیں دینے لگیں منزلوں کا پتہ
حیات گنگنانے لگے تو جو تھمے ہاتھ چلے . . . !
Posted on Jun 21, 2012
سماجی رابطہ