الزام عاشقوں پہ لگایا نا کیجیے

یاد خدا کو دل سے بھلایا نا کیجیے
ہر در پہ اپنے سر کو جھکایا نا کیجیے

لٹ جائے گی غموں کی یہ دولت بھی دوستو
سینے کے داغ سب کو دکھایا نا کیجیے

بے بے پردگی تمہاری خطا کی ہے مرتکب
الزام عاشقوں پہ لگایا نا کیجیے

جو دوسروں کے واسطے وجہ ملال ہو
ایسی خوشی کبھی بھی منایا نا کیجیے

گھر آپ کے پڑوسی کا تاریک ہے تو پھر
قندیل اپنے گھر میں سجایا نا کیجیے

کچ بھی نا ہاتھ آئیگا رسوائی کے سوا
دکھ درد اپنے دل کا دکھایا نا کیجیے

میں جانتا ہوں یہ ہے وفا کی منافقت
یوں مسکرا کے مجھ کو منایا نا کیجیے . . . !

Posted on Dec 16, 2011