جو بھی کہنا ہے کہو پھر ان کہا رہ جائے گا ،
قربتوں کے درمیان بھی فاصلہ رہ جائے گا . . . . . ،
وہ گزر جائے گا ان راستوں سے مثل بعد صباء ،
اور تو ان رہ گزر میں کھڑا رہ جائے گا . . . .
بند کانوں سے سنے گا تو کہنکتی گفتگو
بھیگی آنکھوں سے اسے بس دیکھتا رہ جائے گا . .
چھین لے گی صبح اک آہٹ کا جھوٹا خواب بھی
آنکھ کی سونی گلی میں رت جگا رہ جائے گا ، ،
تتلیاں حجرت کریں گی موسموں کے ساتھ ساتھ ،
اور شہر گل میں آشوب ای ہوا رہ جائے گا
بادلوں سے آگ برسے گی فضا ای شہر پر ،
نقش مٹ جائیں گئے اک نقش فنا رہ جائے گا . . . !
Posted on Dec 16, 2011
سماجی رابطہ