جب بھی چاہیں ایک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ ،
ایک چہرے پہ کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ ،
مل بھی لیتے ہیں وہ گلے اپنے مطلب کے لیے ،
آ پڑے مشکل تو نظریں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ ،
خود فریبی کی انہیں عادت سی شاید پڑ گئی ،
ہر نئے رہ زن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ ،
ہے بجا انکی شکایت پر اس کا کیا علاج ،
بجلیاں خود اپنے گلشن پہ گرا لیتے ہیں لوگ ،
ہو خوشی انکو بھی حاصل یہ ضروری تو نہیں ،
غم چھپانے کے لیے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ . . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ