جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے

جو غیر تھے وہ اسی بات پر ہمارے ہوئے
کے ہم سے دوست بہت بے خبر ہمارے ہوئے

کسے خبر وہ محبت تھی یا رقابت تھی
بہت سے لوگ تجھے دیکھ کر ہمارے ہوئے

اب اک ہجوم شکستہ دلان ہے ساتھ اپنے
جنہیں کوئی نا ملا ہمسفر ہمارے ہوئے

کسی نے غم تو کس نے مزاج ای غم بخشا
سب اپنی اپنی جگہ چارہ گر ہمارے ہوئے

بجھا کے طاق کی شامیں نا دیکھ تاروں کو
اسی جنون میں تو برباد گھر ہمارے ہوئے

وہ اعتماد کہاں سے فراز لیں گئے
کسی کو چھوڑ کے وہ اب اگر ہمارے ہوئے . . . !

Posted on May 30, 2012