کبھی ضد میں ہی تیرا ہو گیا

کبھی ضد میں ہی تیرا ہو گیا کبھی دل نے تجھ کو گنوا دیا
اسی کشمکش میں جئے صنم تو نے یاد رکھا یا بھلا دیا

کبھی بے بسی میں ہی ہنس دیے کبھی ہنسی نے ہم کو رلا دیا
کبھی پھول سے رہی بیرخی ، کبھی خار سے ہاتھ ملا دیا

کبھی اک کو اپنا نا کر سکے ، کبھی خود کو سب کا بنا دیا
یو ہی دن گزر گئے پیار کے ، یوں ہی خواب خود کو بنا دیا

جو ملا نہیں وہ میرا ہوا ، جسے کھو دیا اسے پا لیا
یہ عجیب کھیل ہیں پیار کے ، اک کھیل سے ہی نبھا لیا

ہے عجیب شان کی زندگی ، کے میں ہارتا رہا جیت کر
جو خواب ابھرے تھے آنکھ میں انہیں آنکھ میں ہی سلا دیا

Posted on Oct 08, 2011