کبھی ضد میں تیرے ہو گئے

کبھی ضد میں تیرے ہو گئے

کبھی ضد میں تیرے ہو گئے ،
کبھی دل نے تجھے گنوا دیا .

ایسی کشمکش میں رہے سدا ،
تو نا یاد رکھا یا بھلا دیا .

کبھی بے بسی میں ہنس دیے ،
کبھی ہنسی نے ہم کو رلا دیا .

کبھی پھول سے رہی دوستی
کبھی ہاتھ کانٹوں سے ملا دیا .

کبھی ایک کو اپنا نا کر سکے ،
کبھی خود کو سب کا بنا دیا .

یوں ہی دن گزر گئے پیار کے ،
کبھی ایک خواب خود کو بنا لیا .

جو خواب ابھرے ان آنکھوں میں ،
انہیں آنکھ میں ہی سلا دیا ! !

Posted on Feb 16, 2011