کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
کے تنہا ساون بتا چکا ہوں
میں سارے ارمان جلا چکا ہوں
جو شعلے بکھرے تھے خواہشوں کے
وہ آنسوں سے بجھا چکا ہوں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
بغیر اس کے اداس ہوں میں
بدلتی رُت کا قیاس ہوں میں
بجھا دے اپنی محبت سے
سلگتی صدیوں کی پیاس ہوں میں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
وہ جذبے میرے اچھال گیا ہے
جفا کے سانچے میں ڈھل گیا ہے
نا بدلے موسم بھی اتنا جلدی
وہ جتنا جلدی بدل گیا ہے
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
میں چاک دامن کو سی رہا ہوں
بہت ہی مشکل میں جی رہا ہوں
دیا جو نفرت کا زہر اس نے
سمجھ کے امرت وہ پی رہا ہوں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
فصیل نفرت گرا رہا ہوں
گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں
وہ اپنے وعدوں سے پھر گیا ہے
میں اپنے وعدے نباہ رہا ہوں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
یہ کیسی الجھن میں جی رہا ہوں
میں اپنے سائے سے ڈر رہا ہوں
جو ہو سکے تو سمیٹ لے وہ
میں تنکا تنکا بکھر رہا ہوں
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا …
نا دل میں کوئی ملال رکھے
ہمیشہ اپنا خیال رکھے
وہ سارے غم اپنے مجھ کو دے ڈے
تمام خوشیاں وہ سنبھل رکھے
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا . . . !
کہیں ملے تو اس سے یہ کہنا
Posted on Mar 02, 2012
سماجی رابطہ