عجیب طرح سے سوچا ہے زندگی کے لیے
کے زخم زخم میں کھلتا ہوں میں ہر خوشی کے لیے
وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقین آیا
کوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لیے
سوال یہ ہے کے اس نے کبھی نہیں پوچھا
کے آپ سوچتے کیسے ہیں شاعری میرے لیے
اسے خبر ہے کے اس کا کوئی نہیں اپنا
ایک آشْنائی بھی کافی ہے اجنبی کے لیے
خطا کسی کی ہو لیکن سزا کسی کو ملے
یہ بات جبر نے چوڑی ہے ہر صدی کے لیے
یہ سادگی تھی میری یا کے چاہت تھی
کے میں نے خود کو پیش کیا دل لگی کے لیے . . . !
Posted on Mar 02, 2012
سماجی رابطہ