کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے

کلام کرتی نہیں بولتی بھی جاتی ہے
تری نظر کو یہ کیسی زبان آتی ہے

کبھی کبھی مجھے پہچانتی نہیں وہ آنکھ
کبھی چراغ سے چاروں طرف جلاتی ہے

عجب تضاد میں پلتی ہے ترے وصل کی آس
کہ ایک آگ بجھاتی ہے اک لگاتی ہے

وہ دیکھتی ہے مجھے ایسی مست نظروں سے
مرے لہُو میں کوئی آگ سرسراتی ہے

یہ چار سو کا اندھیرا سمٹنے لگتا ہے
کچھ اس طرح تری آواز جگمگاتی ہے

یہ کوئی اور نہیں آگ ہے یہ اندر کی
بدن کی رات میں جو روشنی بچھاتی ہے

میں اس کو دیکھتا رہتا ہوں رات ڈھلنے تک
جو چاندنی تری گلیوں سے ہو کر آتی ہے

یہ روشنی بھی عطا ہے تری محبت کی
جو میری روح کے منظر مجھے دکھاتی ہے

امید وصل بھی امجد ہے کانچ کی چوڑی
کہ پہننے میں کئی بار ٹوٹ جاتی ہے

Posted on May 06, 2011