کھلی جو آنکھ تو وہ تھا نا وہ زمانہ تھا
کھلی جو آنکھ تو وہ تھا نا وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی تنہائی تھی فسانہ تھا
غموں نے بانٹ لیا مجھے یوں آپس میں
کے جیسے میں کوئی لوٹا ہوا خزانہ تھا
یہ کیا چند ہی قدموں پر تھک کے بیٹھ گئے
تمھیں تو ساتھ میرا دور تک نبھانا تھا
مجھے جو میرے لہو میں ڈبو کے گزرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں یار اک پرانا تھا
خود اپنے ہی ہاتھ سے اس کو کاٹ دیا
کے جس درخت کی ٹہنی پے آشیانہ تھا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ