کیا تجھے آگہی نہیں

کیا تجھے آگہی نہیں

پرآسائش غم کا شکریہ ، کیا تجھے آگہی نہیں
تیرے بغیر زندگی درد ہے ، زندگی نہیں

دور تھا کے گزر گیا ، نشہ تھا ایک اُتَر گیا
اب وہ مقام ہے جہاں شکوہ بیرخی نہیں

تیرے سوا کروں پسند کیا تیری کائنات میں
دونوں جہاں کی نعمتیں ، قیمت بندگی نہیں

لاکھ زمانہ ظلم ڈھائے ، وقت نا وہ خدا دکھائے
جب مجھے ہو یقین کے تو حاصل زندگی نہیں

دل کی شگفتگی کے ساتھ راحت مےکدہ گئی
فرصت مہ کشی تو ہے ، حسرت مہ کشی گئی

زخم پے زخم کھاکے جی ، اپنے لہو کے گھونٹ پی
آہ نا کر ، لبوں کو سی ، عشق ہے دل لگی نہیں

دیکھ کے خشک و زرد پھول ، دل ہے کچھ اس طرح ملول
جیسے تیری خزاں کے بعد ، دور بہار ہی نہیں

Posted on Feb 16, 2011