لکیریں مٹ بھی سکتی ہیں

کاتب تقدیر نے
بخت کی سیاہی سے
زندگی کی لوح پر
ہار کا یا جیت کا
جو بھی فیصلہ لکھا
وہ ہی اک حقیقت ہے
گھر کی بالکونی میں
بیٹھ کر گھنٹوں تک
سوچتے رہنے سے
ہاتھوں کی لکیروں کو
کھوجتے رہنے سے
وہ تو مٹ نہیں سکتا
مان لے تقدیر کو
ضد کرنی چھوڑ دے
ہاتھوں کی لکیروں سے
جڑے رشتے توڑ دے
کیوں کے یہ لکیریں تو
بعد گمان کرتی ہیں
بے ایمان کرتی ہیں
ہاتھوں کی لکیروں میں
کچھ بھی تو نہیں رکھا
یہ لکیریں تو فقط
آڑھے ترچھے نقشے ہیں
آڑھے ترچھے نقشوں میں
در با در بھٹکنے سے
دلنشیں خوابوں کی
تعبیریں نہیں ملتیں
سائے ہاتھ لگتے ہے
اور کچھ نہیں ملتا
کیوں کے یہ لکیریں ہیں
لکیریں جھوٹ کہتی ہیں
لکیریں مٹ بھی سکتی ہیں . . !

Posted on Feb 01, 2012