لطف وہ عشق میں پائے ہیں کی جی جانتا ہے
رنج بھی ایسی اٹھائے ہیں کی جی جانتا ہے
مسکراتے ہوئے وہ مجمع آغیار کے ساتھ
آج یوں بزم میں آئے ہیں کی جی جانتا ہے
کعبہ و دیر میں پتھرا گئی دونوں آنکھیں
ایسے جلوہ نظر آئے ہیں کی جی جانتا ہے
دوستی میں تیری در پردہ ہمارے دشمن
اس قدر اپنے پرائے ہیں کی جی جانتا ہے
انہی قدموں نے تمہارے ، انہی قدموں کی قسم
خاک میں اتنے ملائے ہیں کی جی جانتا ہے
داغ ای وارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کی جی جانتا ہے . . . . !
Posted on Jul 18, 2012
سماجی رابطہ