میرے آسْمان کے ہاتھ میں بس ایک چاند تھا آس کا

میں کئی رتوں سے ہوں دیکھتا کے تمام رنگ ہیں بجھے ہوئے
یہ اب کے خزاں کو کیا ہوا کیوں میری نگاہ میں ٹھہر گئی

میں کیا بتائوں کے اب کی بار چمن کی حالت عجیب تھی
ہر پھول ماتم سرا ملا میری جہاں جہاں بھی نظر گئی

یہ کون جانے کے کیا ہوا میں ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک گیا
کے وہ جو ایک تتلی تھی باغ میں ناجانے وہ بھی کدھر گئی

ابھی ہے ذرا وہ اثر جسے میری ذات نے پوجا کبھی مگر
وہ جنون تو کب کا ختم ہوا وہ صورت تو دل سے اُتَر گئی

مجھے کس جرم کی سزا ملی کے میری روح تک ہے تھکی ہوئی
میں اپنی جگا سے ہلا نہیں میری سانس پھر بھی اُکھڑ گئی

یہ چراغ جان بھی عجیب ہے کے جلا ہوا ہے ابھی تلک
تیری بیوفائی کی آندھیاں تو کبھی کی آ کے گزر گئی

میرے آسْمان کے ہاتھ میں بس ایک چاند تھا آس کا
اسے بادلوں نے نگل لیا تو میری کائنات ہی اجڑ گئی . . . ! ! !

Posted on Oct 25, 2011