محبت بخش دیتی ہے

محبت بخش دیتی ہے
کبھی رعنایاں ایسی
کے جیسے دھوپ کے ہوتے
کبھی بادل برس جائے
کے جیسے بن کہے کوئی
کہیں دل میں اُتَر جائے
کہیں پریوں کی وادی میں
بڑے سے تخت پر بیٹھے
کوئی پھولوں کے دامن سے
کوئی رنگوں کے آنچل سے
سروں پر سایہ کر ڈے
محبت بخش دیتی ہے
کبھی تنہائیاں ایسی
کے جیسے آگ سی برسیں
جو سارا تن جلا رکھے
کے جیسے رستے میں ہی
کوئی رہی بھٹک جائے
کے جیسے من کے اندر کچھ ،
چھنک سے ٹوٹ سا جائے
کے جیسے دل پگھل جائے
محبت کیا ہے پھر سوچو !
کیا رعنائی ؟ یا تنہائی . . . ؟

Posted on Feb 10, 2012